امریکی صدر بارک اوباما نے اعتراف کیا ہے کہ امریکا کو بھی نسلی اور مذہبی منافرت کا سامنا ہے جس کے خاتمے کے لئے مسلسل لڑ رہے ہیں اور آئندہ امریکا کی ساری خارجہ پالیسی دہشت گردی کے خلاف نہیں بنے گی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کاکہنا تھا کہ امریکا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے قانون پر یقین نہیں رکھتا، دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے جس کے خاتمے کے لئے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا، عراق اور شام میں سرگرم جنگجو تنظیم داعش کے خلاف تنہا نہیں لڑ سکتے اور اس سے مذاکرات نہیں کریں گے جبکہ داعش کے خاتمے کے لئے 40 سے زائد ممالک کارروائی کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں برداشت نہیں کریں گے، دہشت گرد انٹرنیٹ پر پروپیگنڈہ کے ذریعے لوگوں کو اپنا
ہم خیال بنا رہے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اسلام عظیم مذہب ہے اور امریکا کی اس سے کوئی لڑائی نہیں جبکہ لاکھوں مسلمان امریکا میں مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ رہ رہے ہیں، کسی بھی غیرملکی سر زمین پر قبضے کے لئے فوج نہیں بھیجیں گے،امریکی صدر کا ایرانی کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کہنا تھا کہ ایران کے پاس جوہری معاہدہ کرنے کا سنہری موقع ہے اور ایرانی رہنماؤں اور عوام کو ایک ہی مشورہ ہے کہ وقت ضائع کئے بغیر جلد جوہری معاہدہ پر رضا مندی ظاہر کردیں۔
براک اوباما نے یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے تنازع کے حوالے سے کہا کہ امریکا اور اتحادی یوکرین کے عوام کی حمایت کریں گے، اگر روس نے امن کا رستہ اپنایا تو اس پر عائد پابندیاں اٹھالی جائیں گیں جبکہ مشرق وسطی میں شیعہ سنی تنازع ختم ہونا چایئے تاہم امریکا مشرق وسطی میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔